NAZAM By PARVEEN SHAKIR

 



نظم
وہ باغ میں میرا منتظر تھا
اور چاند طلوع ہو رہا تھا

زلف شب وصل کھل رہی تھی
خوشبو سانسوں میں گھل رہی تھی

آئی تھی میں اپنے پی سے ملنے
جیسے کوئی گل ہوا سے کھلنے

اک عمر کے بعد میں ہنسی تھی
خود پر کتنی توجہ دی تھی!

پہنا گہرا بسنتی جوڑا
اور عطر سہاگ میں بسایا

آئینے میں خود کو پھر کئی بار
اس کی نظروں سے میں نے دیکھا

صندل سے چمک رہا تھا ماتھا
چندن سے بدن مہک رہا تھا

ہونٹوں پہ بہت شریر لالی
گالوں پہ گلال کھیلتا تھا

بالوں میں پروئے اتنے موتی
تاروں کا گمان ہو رہا تھا

افشاں کی لکیر مانگ میں تھی
کاجل آنکھوں میں ہنس رہا تھا

کانوں میں مچل رہی تھی بالی
بانہوں سے لپٹ رہا تھا گجرا


اور سارے بدن سے پھوٹتا تھا
اس کے لیے گیت جو لکھا تھا!

ہاتھوں میں لیے دئیے کی تھالی
اس کے قدموں میں جا کے بیٹھی

آئی تھی کہ آرتی اتاروں
سارے جیون کو دان کر دوں!

دیکھا مرے دیوتا نے مجھ کو
بعد اس کے ذرا سا مسکرایا

پھر میرے سنہرے تھال پر ہاتھ
رکھا بھی تو اک دیا اٹھایا

اور میری تمام زندگی سے
مانگی بھی تو ایک شام مانگی



Post a Comment

1 Comments

Do leave your comments