barish hui to phulon ke tan chaak ho gae

 بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے

پروین شاکر



بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے 


موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہو گئے 


بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں 


کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے 


جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں 


بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے 


لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس 


سورج کی شہ پہ تنکے بھی بے باک ہو گئے 


بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب 


دریا کے رخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے 


سورج دماغ لوگ بھی ابلاغ فکر میں 


زلف شب فراق کے پیچاک ہو گئے 


جب بھی غریب شہر سے کچھ گفتگو ہوئی 


لہجے ہوائے شام کے نمناک ہو گئے 


Post a Comment

0 Comments